EN हिंदी
آنکھ میں آنسو نہیں شبنم نہیں کچھ غم نہیں | شیح شیری
aankh mein aansu nahin shabnam nahin kuchh gham nahin

غزل

آنکھ میں آنسو نہیں شبنم نہیں کچھ غم نہیں

ناصر راؤ

;

آنکھ میں آنسو نہیں شبنم نہیں کچھ غم نہیں
زخم ہیں جن پر کوئی مرہم نہیں کچھ غم نہیں

درد وہ دے کر مسلسل حالت دل پوچھتے ہیں
یے عنایت بھی تو ان کی کم نہیں کچھ غم نہیں

رات کا پچھلا پہر ہے اور ہم خانہ بدوش
کوئی در دیوار کا ماتم نہیں کچھ غم نہیں

ہر طرف ہیں خون سے رنگین کپڑے اور تن
یے ہمارے شوق کا عالم نہیں کچھ غم نہیں

سب ڈرے سہمے ہوے سے گم ہیں اپنے آپ میں
ہر کوئی شامل ہے اس میں ہم نہیں کچھ غم نہیں