آنکھ میں آنسو ہیں احساس مسرت دل میں ہے
ایک فردوس نظارہ آپ کی محفل میں ہے
ہر جفا تیری مناسب ہر ستم تیرا درست
اب وہی میری تمنا ہے جو تیرے دل میں ہے
جب بجز محبوب ہو جاتی ہے اوجھل کائنات
اک مقام ایسا بھی جذب شوق کی منزل میں ہے
فصل گل میں بے تحاشا ہنسنے والو ہوشیار
اضطراب دل کا پہلو بھی سکون دل میں ہے
جس کو دوری سے حضوری میں سوا ہو اضطراب
وہ پریشان محبت کس قدر مشکل میں ہے
دہر کے ہنگامۂ شیخ و برہمن سے بلند
اور بھی ہنگامہ اک گرداب نوح دل میں ہے
اب کوئی شایان جلوہ ہے نہ شایان کلام
تو اسی منزل میں بہتر ہے کہ جس منزل میں ہے
ناسزا ہے اس کے جلووں کی نزاکت کے لئے
وہ غم حاصل جو تیرے عشق کے حاصل میں ہے
میں تو خود اٹھنے کو ہوں بدلو نہ انداز نظر
تم جو کہتے ہچکچاتے ہو وہ میرے دل میں ہے
اپنے مرکز سے ستاروں پر جو کرتا ہوں نظر
جس کو جس منزل میں چھوڑا تھا اسی منزل میں ہے
موم کر دیتی ہے جو فولاد و آہن کا جگر
وہ بھی اک جھنکار آواز شکست دل میں ہے
کون ہے احسانؔ میری زندگی کا رازدار
کیا کہوں کس طرح مرنے کی تمنا دل میں ہے
غزل
آنکھ میں آنسو ہیں احساس مسرت دل میں ہے
احسان دانش