آنکھ کو جکڑے تھے کل خواب عذابوں کے
میں سیراب کھڑا تھا بیچ سرابوں کے
تجھ کو کھو کر مجھ پر وہ بھی دن آئے
چھپ نہ سکا دکھ پیچھے کئی نقابوں کے
فکر کا تن کب ڈھانپ سکی مدہوشی تک
چھوڑ دیے نشوں نے ہاتھ شرابوں کے
عمر انہی کے ساتھ گزاری ہے جاناں
زخم مجھے لگتے ہیں پھول گلابوں کے
ایک سوال نے جب سے مجھ کو پہنا ہے
شرمندہ ہیں سارے رنگ جوابوں کے
کس سے پوچھوں میں رستہ اب تجھ گھر کا
منہ تکتے ہیں خالی ورق کتابوں کے
جانے پھر کب وقت یہ پل دہرائے گا
لگ جا سینے توڑ کے بند حجابوں کے
ملک میں میرے امن کی خواہش جان من
بکری جیسے بیچ میں سو قصابوں کے
ختم نہیں شہزادؔ فقط تجھ پر تخلیق
ہم بھی پیارے خالق ہیں کچھ خوابوں کے
غزل
آنکھ کو جکڑے تھے کل خواب عذابوں کے
فرحت شہزاد