EN हिंदी
آنکھ کی پتلی میں سورج سر میں کچھ سودا اگا | شیح شیری
aankh ki putli mein suraj sar mein kuchh sauda uga

غزل

آنکھ کی پتلی میں سورج سر میں کچھ سودا اگا

غیاث متین

;

آنکھ کی پتلی میں سورج سر میں کچھ سودا اگا
پانیوں میں سرخ پودے دھوپ میں سایا اگا

آسماں کی بھیڑ میں تو اس لیے سوچا گیا
اس زمیں کی چھاتیوں سے نور کا چشمہ اگا

نیند میں چلنے کی عادت خواب میں لکھنے کا فن
ایک جیسی بات ہے تو آتش نغمہ اگا

میں نے اپنی دونوں آنکھوں میں اگائے ہیں پہاڑ
تیری آنکھوں میں سمندر تھا وہاں صحرا اگا

سبزۂ بیگانہ بن کر جی لیا تو کیا جیا
خود کو بو کر اس زمیں سے اک نیا چہرا اگا

دھوپ جیسے قہقہے ہیں ریت جیسی بات ہے
تو اگر غواص ہے تو ریت میں دریا اگا

یہ زمیں بوڑھی ہے اس کو پیٹھ سے اپنی اتار
آسماں کو جیب میں رکھ لے نئی دنیا کا اگا

ہم تو خود اظہار ہیں اپنے زمانے کا متینؔ
بجھ گئے آواز کے شعلے نیا لہجہ اگا