EN हिंदी
آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں | شیح شیری
aankh ki jhil mein kohram se aae hue hain

غزل

آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں

راشد امین

;

آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں
چاند ڈھلنے کو ہے اور شام سے آئے ہوئے ہیں

چوڑیوں اور پرندوں کے نہیں ہیں گاہک
ہم تو میلے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں

تیری تصویر تو کمرے میں ہے یادوں کا گلاب
زرد پتے تو در و بام سے آئے ہوئے ہیں

بس کے اسٹینڈ پہ ٹھیلوں کو سجائے ہوئے لوگ
خود کسی کوچۂ نیلام سے آئے ہوئے ہیں

اتنا کردار ہے نوٹنکی میں اپنا جیسے
دھوپ میں موم کے اندام سے آئے ہوئے ہیں