آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں
چاند ڈھلنے کو ہے اور شام سے آئے ہوئے ہیں
چوڑیوں اور پرندوں کے نہیں ہیں گاہک
ہم تو میلے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں
تیری تصویر تو کمرے میں ہے یادوں کا گلاب
زرد پتے تو در و بام سے آئے ہوئے ہیں
بس کے اسٹینڈ پہ ٹھیلوں کو سجائے ہوئے لوگ
خود کسی کوچۂ نیلام سے آئے ہوئے ہیں
اتنا کردار ہے نوٹنکی میں اپنا جیسے
دھوپ میں موم کے اندام سے آئے ہوئے ہیں

غزل
آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں
راشد امین