آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا
قطرۂ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہو گیا
خاک کی چادر میں جسم و جاں سمٹتے ہی نہیں
اور زمیں کا رنگ بھی اب دھوپ جیسا ہو گیا
ایک اک کر کے مرے سب لفظ مٹی ہو گئے
اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہو گیا
تجھ سے کیا بچھڑے کہ آنکھیں ریزہ ریزہ ہو گئیں
آئنہ ٹوٹا تو اک آئینہ خانہ ہو گیا
اے ہوائے وصل چل پھر سے گل ہجراں کھلا
سر اٹھا پھر اے نہال غم سویرا ہو گیا
اے جمال فن اسے مت رو کہ تن آسان تھا
تیری دنیاؤں کا خاورؔ صرف دنیا ہو گیا
غزل
آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا
ایوب خاور