EN हिंदी
آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا | شیح شیری
aankh ki dahliz se utra to sahra ho gaya

غزل

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا

ایوب خاور

;

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا
قطرۂ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہو گیا

خاک کی چادر میں جسم و جاں سمٹتے ہی نہیں
اور زمیں کا رنگ بھی اب دھوپ جیسا ہو گیا

ایک اک کر کے مرے سب لفظ مٹی ہو گئے
اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہو گیا

تجھ سے کیا بچھڑے کہ آنکھیں ریزہ ریزہ ہو گئیں
آئنہ ٹوٹا تو اک آئینہ خانہ ہو گیا

اے ہوائے وصل چل پھر سے گل ہجراں کھلا
سر اٹھا پھر اے نہال غم سویرا ہو گیا

اے جمال فن اسے مت رو کہ تن آسان تھا
تیری دنیاؤں کا خاورؔ صرف دنیا ہو گیا