آنکھ کھلی تو مجھ کو یہ ادراک ہوا
خواب نگر کا ہر منظر سفاک ہوا
جسم و جان کا سارا قصہ پاک ہوا
خاکی تھا میں خاک میں مل کر خاک ہوا
مجھ پر شک کرنے سے پہلے دیکھ تو لے
میرا دامن کس جانب سے چاک ہوا
ایک ہی پل میں جا پہنچا دنیا سے پار
ڈوبنے والا سب سے بڑا تیراک ہوا
ٹکڑوں ٹکڑوں بانٹ رہا ہے چہرے کو
ٹوٹ کے شیشہ اور بھی کچھ بے باک ہوا
رات کو میں نے دن کرنے کی ٹھانی ہے
میری ضد پر سورج بھی نمناک ہوا
کیسی محبت کیسا تعلق ڈھونگ ہے سب
ماں کے علاوہ ہر رشتہ ناپاک ہوا
دن میں نکلنا چھوڑ دیا اس نے بھی
آج کا جگنو بچوں سے چالاک ہوا
غزل
آنکھ کھلی تو مجھ کو یہ ادراک ہوا
راشد حامدی