EN हिंदी
آنکھ کھولی ہے تو یہ دیکھ کے پچھتائے ہیں | شیح شیری
aankh kholi hai to ye dekh ke pachhtae hain

غزل

آنکھ کھولی ہے تو یہ دیکھ کے پچھتائے ہیں

کانتی موہن سوز

;

آنکھ کھولی ہے تو یہ دیکھ کے پچھتائے ہیں
لوگ غزلوں سے بہت دور نکل آئے ہیں

وہ جو دکھ سہتے تھے اف تک بھی نہیں کرتے تھے
آج صف باندھ کے میداں میں اتر آئے ہیں

خون ہی خون نظر آتا ہے تا حد نظر
کس کے نقش کف پا عرش پہ لہرائے ہیں

آج یہ سوچ کے لرزاں ہے جفا جو کا غرور
قمقمے کس لیے دھرتی پہ اتر آئے ہیں

کامراں ہونے کا عشاق کو دیتے ہیں پیام
یہ خط و خال جو کہرے سے ابھر آئے ہیں

کل تلک شیخ گریزاں بھی تھے بیزار بھی تھے
آج کچھ بات ہے جو سوزؔ کے گھر آئے ہیں