آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے
مژدۂ طالع بیدار لیے پھرتی ہے
نام سے داد بھی ملتی ہے سخن کو اکثر
چرخ پر شہرت فن کار لیے پھرتی ہے
خاک سے پھول نکلتے ہیں مہکتا ہے چمن
کیا زمیں طبلۂ عطار لیے پھرتی ہے
کوئی محفل بھی نہیں جو نہ ہو تائید طلب
در بدر جرأت انکار لیے پھرتی ہے
بن گئی پردہ نشیں کھینچ کے پلکوں کے حصار
ہم کو لیکن نگۂ یار لیے پھرتی ہے
پھینک کر خاک میں اقدار کو تحقیر کے ساتھ
زندگی درہم و دینار لیے پھرتی ہے
غزل
آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے
سید حامد