EN हिंदी
آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے | شیح شیری
aankh jo ishwa-e-pur-kar liye phirti hai

غزل

آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے

سید حامد

;

آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے
مژدۂ‌ طالع بیدار لیے پھرتی ہے

نام سے داد بھی ملتی ہے سخن کو اکثر
چرخ پر شہرت فن کار لیے پھرتی ہے

خاک سے پھول نکلتے ہیں مہکتا ہے چمن
کیا زمیں طبلۂ عطار لیے پھرتی ہے

کوئی محفل بھی نہیں جو نہ ہو تائید طلب
در بدر جرأت انکار لیے پھرتی ہے

بن گئی پردہ نشیں کھینچ کے پلکوں کے حصار
ہم کو لیکن نگۂ یار لیے پھرتی ہے

پھینک کر خاک میں اقدار کو تحقیر کے ساتھ
زندگی درہم و دینار لیے پھرتی ہے