آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے
خواب کی ریت میں سورج کا شجر بوتی ہے
ایک گمنامی کا جنگل ہوں جہاں شکل مری
اپنی پہچان کا ہر نقش یقیں کھوتی ہے
دور ان دیکھی سی سرحد ہے کہ جس کے اس پار
کوئی بستی ہے جو راتوں کو سدا روتی ہے
سطح چادر پہ شکن اور سر بالیں پہ نشیب
یہ تو تنہائی ہے بستر پہ مرے سوتی ہے
بھولی بسری ہوئی یادوں کی عجب بھیڑ ہے جو
دل کے دروازے پہ ہر شام لگی ہوتی ہے
غزل
آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے
رفعت شمیم