EN हिंदी
آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے | شیح شیری
aankh har shab ko andheron ki qaba dhoti hai

غزل

آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے

رفعت شمیم

;

آنکھ ہر شب کو اندھیروں کی قبا دھوتی ہے
خواب کی ریت میں سورج کا شجر بوتی ہے

ایک گمنامی کا جنگل ہوں جہاں شکل مری
اپنی پہچان کا ہر نقش یقیں کھوتی ہے

دور ان دیکھی سی سرحد ہے کہ جس کے اس پار
کوئی بستی ہے جو راتوں کو سدا روتی ہے

سطح چادر پہ شکن اور سر بالیں پہ نشیب
یہ تو تنہائی ہے بستر پہ مرے سوتی ہے

بھولی بسری ہوئی یادوں کی عجب بھیڑ ہے جو
دل کے دروازے پہ ہر شام لگی ہوتی ہے