آنکھ اور نیند کے رشتے مجھے واپس کر دے
میرے خوابوں کے جزیرے مجھے واپس کر دے
تجھ کو منظور نہیں مجھ کو ہے اب بھی منظور
میری قربت مرے بوسے مجھے واپس کر دے
اپنے ماتھے کے چمکتے ہوئے سورج کی قسم
میری آنکھوں کے سویرے مجھے واپس کر دے
زندگی سایۂ گیسو سے نکل کر چپ ہے
میری زنجیر کے حلقے مجھے واپس کر دے
نہ تو پردے ہیں، نہ گلدان، نہ فانوس کوئی
گھر کے خوش رنگ سلیقے مجھے واپس کر دے
پتلیاں ہلتی تھیں جاپان کی گڑیا کی طرح
خواب آنکھوں کے دریچے مجھے واپس کر دے
ایک مخلوق کو جھکنا تھا مرے قدموں پر
میرے محکوم فرشتے مجھے واپس کر دے
میری قدریں مرے ماضی کی وہ سچی قدریں
میری تہذیب کے رشتے مجھے واپس کر دے
میرا چہرہ مری قامت مری عظمت کے نشاں
میری تاریخ کے صفحے مجھے واپس کر دے
بیچ دینے پہ بھی گھر لوٹ کر آ جاتے تھے
وہ وفادار پرندے مجھے واپس کر دے
آ پڑی ایسی ضرورت کہ لہو پی جاؤں
اب مرے خون کے رشتے مجھے واپس کر دے
کس لئے چھین رہا ہے تو مرے گھر کا سکوں
میرے بچوں کے کھلونے مجھے واپس کر دے
کون کہتا ہے کہ جانے دے مری لاش کو گھر
بس مرے خون کے کپڑے مجھے واپس کر دے
مل رہی ہے مجھے ناکردہ گناہوں کی سزا
میرے مالک مرے سجدے مجھے واپس کر دے
منتشر ہیں مری بھیڑیں انہیں یکجا کر لوں
میرے روحانی وسیلے مجھے واپس کر دے
لا ادھر، سامنے لا، ٹوٹی ہوئی کشتی کو
میں سلامت ہوں وہ تختے مجھے واپس کر دے
تو جنہیں بیچ کے خوش حال نہیں ہوتا ہے
قصہ گو ایسے لطیفے مجھے واپس کر دے
کھیل پھر ان کے بنا کھیل نہ رہ پائے گا
ضد نہ کر تاش کے پتے مجھے واپس کر دے
غزل
آنکھ اور نیند کے رشتے مجھے واپس کر دے
ف س اعجاز