آنگن انگن جاری دھوپ
میرے گھر بھی آری دھوپ
کیا جانے کیوں جلتی ہے
صدیوں سے بچاری دھوپ
کس کے گھر تو ٹھہرے گی
تو تو ہے بنجاری دھوپ
اب تو جسم پگھلتے ہیں
جاری جا اب جاری دھوپ
چھپ گئی کالے بادل میں
موسم سے جب ہاری دھوپ
ہو جاتی ہے سرد کبھی
اور کبھی چنگاری دھوپ
آج بہت ہے اندھیارا
چپکے سے آ جاری دھوپ
غزل
آنگن انگن جاری دھوپ
ظفر تابش