آنے والا تو ہر اک لمحہ گزر جاتا ہے
وہ غبار اڑتا ہے انبار سا دھر جاتا ہے
کون سے غار میں گر جاتا ہے منظر سارا
کن خلیجوں میں بھرا شہر اتر جاتا ہے
پتیاں سوکھ کے جھڑ جاتی ہیں چھٹ جاتے ہیں پھل
جس کو موسم کہا کرتے ہیں وہ مر جاتا ہے
لمس کی شدتیں محفوظ کہاں رہتی ہیں
جب وہ آتا ہے کئی فاصلے کر جاتا ہے
انتظار ایک بڑی عمر کا دریوزہ گر
جو بھی آتا ہے کوئی سل یہاں دھر جاتا ہے
غزل
آنے والا تو ہر اک لمحہ گزر جاتا ہے
عتیق اللہ