EN हिंदी
آنے والا ہے کوئی مہمان کیا | شیح شیری
aane wala hai koi mehman kya

غزل

آنے والا ہے کوئی مہمان کیا

عادل حیات

;

آنے والا ہے کوئی مہمان کیا
ہو گئے سب مرحلے آسان کیا

وقت کی رفتار کیسے تھم گئی
ہو گیا ہے ہر نفس بے جان کیا

ٹوٹنا جڑنا تو ہے اک سلسلہ
ہو رہے ہو اس قدر حیران کیا

زندگی سے رشتہ اپنا توڑ کر
جا رہے ہو جب تو یہ سامان کیا

دھوپ کے سائے میں چپ سادھے ہوئے
کر رہے ہو امن کا اعلان کیا

خواہشوں کے سب پرندے اڑ گئے
ہو گئی ہے زندگی ویران کیا

سوچتا رہتا ہوں عادلؔ رات دن
میں ہی کیا ہوں اور مری پہچان کیا