آنے میں تیرے دوست بہت دیر ہو گئی
بزم حیات اب زبر و زیر ہو گئی
پردے کچھ ایسے رو بہ رو آنکھوں کے آ گئے
دنیا مری نگاہ میں اندھیر ہو گئی
دنیا کے جبر و جور سے کیوں کر اماں ملے
میں چپ رہا تو اور بھی وہ شیر ہو گئی
کیا پوچھتے ہیں اب دل محزوں کا حال آپ
اس کو مرے ہوئے تو بہت دیر ہو گئی
ہر چند زندگی نے سنبھالے لئے بہت
پھر بھی اجل کے ہاتھ سے وہ زیر ہو گئی
سرشارؔ ذکر رونق باغ جہاں نہ کر
اکتا گیا دل اس سے نظر سیر ہو گئی
غزل
آنے میں تیرے دوست بہت دیر ہو گئی
جیمنی سرشار