آنے لگی ہے زہر کی خوشبو شمال سے
جھلکے گا رنگ خون کا عصر زوال سے
ہیں درج آنے والی رتوں کے حساب میں
پتے جھڑے ہوئے شجر ماہ و سال سے
خواہش کے کاروبار کی رسمیں بدل گئیں
ملتے ہیں پھول بڑھ کے خود اپنے مآل سے
گلدان میں سجی ہوئی کلیوں کو کیا خبر
کیا پوچھتی ہے باد صبا ڈال ڈال سے
ظاہر ہیں پیرہن کی سپیدی سے تین رنگ
خوشبو کی آبشار رواں سبز شال سے
پردوں کی سرسراہٹیں بوندوں کے رل ترل
کھلتا ہے در ہوائے شب برشگال سے
تو ہی ہجوم شہر میں پہچان لے مجھے
میں آشنا نہیں ہوں ترے خد و خال سے
اب تک حریف سنگ سمجھتا تھا میں اسے
یہ آئنہ تو ٹوٹ گیا دیکھ بھال سے
اندھوں کی انجمن میں جلاتے ہو مشعلیں
ارشاد کچھ نہ پاؤ گے کسب کمال سے
غزل
آنے لگی ہے زہر کی خوشبو شمال سے
ارشاد حسین کاظمی