آندھی میں بساط الٹ گئی ہے
گھنگھور گھٹا بھی چھٹ گئی ہے
وہ گرد اڑائی ہے دکھوں نے
دیوار حیات اٹ گئی ہے
خنجر کی طرح تھی ریگ صحرا
خیمے کی طناب کٹ گئی ہے
میراث گلاب تھی جو خوشبو
جھونکوں میں ہوا کے بٹ گئی ہے
پیاسوں کا ہجوم رہ گیا ہے
اک تیر سے مشک پھٹ گئی ہے
اک اور بھی دن گزر گیا ہے
میعاد عذاب گھٹ گئی ہے
ساحل کی بڑھا کے تشنگی موج
دریا کی طرف پلٹ گئی ہے
پھیلاؤں گا پاؤں کیا میں گلزارؔ
چادر ہی مری سمٹ گئی ہے
غزل
آندھی میں بساط الٹ گئی ہے
گلزار بخاری