EN हिंदी
آندھی کا کر خیال نہ تیور ہوا کے دیکھ | شیح شیری
aandhi ka kar KHayal na tewar hawa ke dekh

غزل

آندھی کا کر خیال نہ تیور ہوا کے دیکھ

صابر زاہد

;

آندھی کا کر خیال نہ تیور ہوا کے دیکھ
دیوار ریت کی سہی اونچی اٹھا کے دیکھ

سایہ ہوں دھوپ ہوں کہ سرابوں کا روپ ہوں
میں کیا ہوں کون ہوں مرے نزدیک آ کے دیکھ

اپنی ہی ذات میں تو سمندر ہوا تو کیا
میرے لہو میں کھولتا سورج بجھا کے دیکھ

اک روز تو لباس سمجھ کر مجھے پہن
کچھ دیر ہی سہی مجھے اپنا بنا کے دیکھ

میں کانچ کے مکان میں رہتا ہوں ان دنوں
آ اے صدائے سنگ مجھے آزما کے دیکھ

شاید کسی چٹان سے جھرنا ابل پڑے
پتھر کے دل پہ موم کا تیشہ جلا کے دیکھ

آتا ہے کون کون ترے غم کو بانٹنے
زاہدؔ تو اپنی موت کی افواہ اڑا کے دیکھ