آمد تصور بت بیداد گر کی ہے
دل کی بھی لوٹ خانہ خرابی جگر کی ہے
تقدیر کی کجی ہو کہ ٹیڑھا ہو آسماں
یہ سب عنایت آپ کی ترچھی نظر کی ہے
اک بار تیر مار کے اب تک خبر نہ لی
یا رب نگاہ مست یہ کس بے خبر کی ہے
یہ رنگ و بو کہاں گل تر کو نصیب تھا
اتری ہوئی قبا کسی رشک قمر کی ہے
پھر بھی کبھی نگاہ کرم ہوگی اس طرف
امید آج تک اسی پہلی نظر کی ہے
غزل
آمد تصور بت بیداد گر کی ہے
منیرؔ شکوہ آبادی