آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے
نقش پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشم مست کا
شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موج بادہ سے
دیکھتا ہوں وحشت شوق خروش آمادہ سے
فال رسوائی سرشک سر بہ صحرا دادہ سے
دام گر سبزے میں پنہاں کیجیے طاؤس ہو
جوش نیرنگ بہار عرض صحرا دادہ سے
خیمۂ لیلےٰ سیاہ و خانۂ مجنوں خراب
جوش ویرانی ہے عشق داغ بیروں دادہ سے
بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسدؔ
دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ سے
غزل
آمد سیلاب طوفان صداۓ آب ہے
مرزا غالب