آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
دود شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست
اے دل ناعاقبت اندیش ضبط شوق کر
کون لا سکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست
خانہ ویراں سازی حیرت تماشا کیجیے
صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتار دوست
عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے
کشتۂ دشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست
چشم ما روشن کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پرخوں ہمارا ساغر سرشار دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی غم خوار دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیام وعدۂ دیدار دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعف دماغ
سر کرے ہے وہ حدیث زلف عنبر بار دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیان شوخی گفتار دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیے
تا بیاں کیجے سپاس لذت آزار دوست
یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیف شعر میں غالبؔ ز بس تکرار دوست
چشم بند خلق جز تمثال خود بینی نہیں
آئینہ ہے قالب خشت در و دیوار دوست
برق خرمن زار گوہر ہے نگاہ تیز یاں
اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیٔ رفتار دوست
ہے سوا نیزے پہ اس کے قامت نوخیز سے
آفتاب صبح محشر ہے گل دستار دوست
اے عدوئے مصلحت چند بہ ضبط افسردہ رہ
کردنی ہے جمع تاب شوق دیدار دوست
لغزشت مستانہ و جوش تماشا ہے اسدؔ
آتش مے سے بہار گرمیٔ بازار دوست
غزل
آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
مرزا غالب