عام رستے سے ہٹ کے آیا ہوں
ساری دنیا سے کٹ کے آیا ہوں
میری وسعت تجھے ڈرا دیتی
اپنے اندر سمٹ کے آیا ہوں
کوئی تازہ ستم کہ میں پچھلے
حادثوں سے نمٹ کے آیا ہوں
ہاں محبت تو مار دیتی ہے
یہ کہانی میں رٹ کے آیا ہوں
میری حالت سے ماپ رستے کو
میں کہاں سے پلٹ کے آیا ہوں
راہ غم اب ڈرا نہیں سکتی
غم سے ہی تو لپٹ کے آیا ہوں
اس کی شاخوں پہ پھل نہیں لگتا
جس شجر سے میں کٹ کے آیا ہوں
کوئی صورت نہیں ہے جڑنے کی
اتنے ٹکڑوں میں بٹ کے آیا ہوں
غزل
عام رستے سے ہٹ کے آیا ہوں
اورنگ زیب