EN हिंदी
عام رستے سے ہٹ کے آیا ہوں | شیح شیری
aam raste se haT ke aaya hun

غزل

عام رستے سے ہٹ کے آیا ہوں

اورنگ زیب

;

عام رستے سے ہٹ کے آیا ہوں
ساری دنیا سے کٹ کے آیا ہوں

میری وسعت تجھے ڈرا دیتی
اپنے اندر سمٹ کے آیا ہوں

کوئی تازہ ستم کہ میں پچھلے
حادثوں سے نمٹ کے آیا ہوں

ہاں محبت تو مار دیتی ہے
یہ کہانی میں رٹ کے آیا ہوں

میری حالت سے ماپ رستے کو
میں کہاں سے پلٹ کے آیا ہوں

راہ غم اب ڈرا نہیں سکتی
غم سے ہی تو لپٹ کے آیا ہوں

اس کی شاخوں پہ پھل نہیں لگتا
جس شجر سے میں کٹ کے آیا ہوں

کوئی صورت نہیں ہے جڑنے کی
اتنے ٹکڑوں میں بٹ کے آیا ہوں