EN हिंदी
آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل وہ مانع عصیاں کیا ہوگا | شیح شیری
aaluda-e-isyan KHud ki hai dil wo man-e-isyan kya hoga

غزل

آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل وہ مانع عصیاں کیا ہوگا

محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی

;

آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل وہ مانع عصیاں کیا ہوگا
جو اپنی حفاظت کر نہ سکا وہ میرا نگہباں کیا ہوگا

ذوق دل شاہاں پیدا کر تاج سر شاہاں کیا ہوگا
جو لٹ نہ سکے وہ ساماں کر لٹ جائے جو ساماں کیا ہوگا

غم خانہ صنم خانہ ایواں یا خانۂ ویراں کیا ہوگا
قصہ ہے دل دیوانہ کا حیراں ہوں کہ عنواں کیا ہوگا

جو سیر چمن کو آتا ہے وہ طالب گل ہی ہوتا ہے
پوچھے کوئی ان نادانوں سے خار چمنستاں کیا ہوگا

کچھ شکوہ نہیں اتنا سن لے اے مست ستم ناوک افگن
دل ہی نہ رہے گا جب میرا پھر تیرا یہ پیکاں کیا ہوگا

اے ہنسنے ہنسانے والے جا افسردگئ دل بڑھتی ہے
جس کو ہو ازل سے نسبت غم ہنسنے سے وہ خنداں کیا ہوگا

آج اپنی نظرؔ سے وہ دیکھیں یہ سلسلۂ طوفاں آ کر
کل کہتے تھے جو حیراں ہو کر ساحل پہ بھی طوفاں کیا ہوگا