عالم میں نہ کچھ کثرت انوار کو دیکھیں
پردہ میں نظر باز رخ یار کو دیکھیں
حیرت سے مرے دیکھنے کو دیکھتے ہیں کیا
دیکھیں تو وہ اپنے لب و رخسار کو دیکھیں
رہنے دیں مجھے گرم فغاں کوچے میں اپنے
اپنی بھی وہ کچھ گرمئ بازار کو دیکھیں
وہ اس سے زیادہ ہے تو یہ اس سے زیادہ
گفتار سنیں اس کی کہ رفتار کو دیکھیں
ہیں زلف و رخ اے شوخ ترے قاتل عالم
کافر ہی کو دیکھیں نہ یہ دیں دار کو دیکھیں
غزل
عالم میں نہ کچھ کثرت انوار کو دیکھیں
رونق ٹونکوی