EN हिंदी
عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا | شیح شیری
aalam mein agar ishq ka bazar na hota

غزل

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا

اشرف علی فغاں

;

عالم میں اگر عشق کا بازار نہ ہوتا
کوئی کسی بندہ کا خریدار نہ ہوتا

ہستی کی خرابی نظر آتی جو عدم میں
اس خواب سے ہرگز کوئی بیدار نہ ہوتا

کہتا ہے تجھے خاک نہ دوں غیر اذیت
یہ دل میں اگر تھی تو مرا یار نہ ہوتا

معلوم کسے تھی یہ تری خانہ خرابی
میں جانتا ایسا تو گرفتار نہ ہوتا

عالم کو جلاتی ہے تری گرمی مجلس
مرتے ہم اگر سایۂ دیوار نہ ہوتا

اے شیخ اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہیے تسبیح میں زنار نہ ہوتا

ظالم مرے حاسد کی تو شادی تھی اسی میں
یعنی مجھے در تک بھی ترے بار نہ ہوتا

دیتے تری مجلس میں اگر راہ فغاںؔ کو
اس شخص سے ہرگز کوئی بے زار نہ ہوتا