EN हिंदी
عالم وحشت تنہائی ہے کچھ اور نہیں | شیح شیری
aalam-e-wahshat-e-tanhai hai kuchh aur nahin

غزل

عالم وحشت تنہائی ہے کچھ اور نہیں

انجم اعظمی

;

عالم وحشت تنہائی ہے کچھ اور نہیں
سر پہ اک گنبد بینائی ہے کچھ اور نہیں

کیوں ہوا مجھ کو عنایت کی نظر کا سودا
آج رسوائی ہی رسوائی ہے کچھ اور نہیں

اپنا گھر پھونک چکا اپنا وطن چھوڑ چکا
یہ فقط بادیہ پیمائی ہے کچھ اور نہیں

ہو سکے تو کوئی فردا کی بنا لو تصویر
وقت جلووں کا تمنائی ہے کچھ اور نہیں

آؤ خوش ہو کے پیو کچھ نہ کہو واعظ کو
میکدے میں وہ تماشائی ہے کچھ اور نہیں