EN हिंदी
عالم امکاں میں دنیا کی ہوا تھی میں نہ تھا | شیح شیری
aalam-e-imkan mein duniya ki hawa thi main na tha

غزل

عالم امکاں میں دنیا کی ہوا تھی میں نہ تھا

قیصر نظامی

;

عالم امکاں میں دنیا کی ہوا تھی میں نہ تھا
جلوہ آرا صرف ذات کبریا تھی میں نہ تھا

کر دیا بیدار جس نے ساکنان عرش کو
وہ کسی درد آشنا دل کی صدا تھی میں نہ تھا

منتشر جس نے کیا تھا ان کی زلف ناز کو
سچ اگر پوچھو تو وہ باد صبا تھی میں نہ تھا

کھل گیا جو راز الفت آج اہل بزم پر
یہ تمہاری مست نظروں کی خطا تھی میں نہ تھا

تنگ آ کر گردش ایام سے بہر سجود
وہ تو میری زندگی وقف دعا تھی میں نہ تھا

حد سے جب قیصرؔ بڑھی ان کی جفائے ناروا
جو بروئے کار آئی وہ وفا تھی میں نہ تھا