آخری کوشش بھی کر کے دیکھتے
پھر اسی در سے گزر کے دیکھتے
گفتگو کا کوئی تو ملتا سرا
پھر اسے ناراض کر کے دیکھتے
کاش جڑ جاتا وہ ٹوٹا آئنہ
ہم بھی کچھ دن بن سنور کے دیکھتے
رہگزر ہی کو ٹھکانا کر لیا
کب تلک ہم خواب گھر کے دیکھتے
کاش مل جاتا کہیں ساحل کوئی
ہم بھی کشتی سے اتر کے دیکھتے
ہو گیا طاری سنورنے کا نشہ
ورنہ خواہش تھی بکھر کے دیکھتے
درد ہی گر حاصل ہستی ہے تو
درد کی حد سے گزر کے دیکھتے
غزل
آخری کوشش بھی کر کے دیکھتے
منیش شکلا