آخری بار زمانے کو دکھایا گیا ہوں
ایسا لگتا ہے کہ میں دار پہ لایا گیا ہوں
سب مجھے ڈھونڈنے نکلے ہیں بجھا کر آنکھیں
بات نکلی ہے کہ میں خواب میں پایا گیا ہوں
پیڑ بھی زرد ہوئے جاتے ہیں مجھ سے مل کر
جانے میں کیسی اداسی سے بنایا گیا ہوں
راہ تکتی ہے کسی اور جگہ خوش خبری
میں مگر اور ہی رستے سے بلایا گیا ہوں
کتنی مشکل سے مجھے دھوپ نے سر سبز کیا
کتنی آسانی سے بارش میں جلایا گیا ہوں
غزل
آخری بار زمانے کو دکھایا گیا ہوں
عابد ملک