آخرش آرائشوں کی زندگی چبھنے لگی
اوب سی ہونے لگی مجھ کو خوشی چبھنے لگی
میں نہ کہتا تھا کہ تھوڑی سی ہوس باقی رکھو
دیکھ لو اب اس طرح آسودگی چبھنے لگی
خواب کا سیلاب کیا گزرا نگاہوں سے مری
ریت پلکوں سے جو چپکی نیند بھی چبھنے لگی
تیرگی کا دشت ناپا روشنی کے واسطے
روشنی پھیلی تو مجھ کو روشنی چبھنے لگی
سخت ایک لمحے کی رو میں آ کے توبہ کر گئے
حلق میں میرے مگر اب تشنگی چبھنے لگی
اک پشیمانی سی تھی مجھ کو مری آواز سے
اور جب میں چپ ہوا تو خامشی چبھنے لگی
یہ بھی کیا ہے بھید میرا کھول دو تم بارہا
یار سوربھؔ اب تو تیری مخبری چبھنے لگی

غزل
آخرش آرائشوں کی زندگی چبھنے لگی
سوربھ شیکھر