آخر اس کے حسن کی مشکل کو حل میں نے کیا
ایک نثری نظم تھی جس کو غزل میں نے کیا
کیا بلاغت آ گئی اس کے بدن کے متن میں
چند لفظوں کا جو کچھ رد و بدل میں نے کیا
باعث توہین ہے دل کے لیے تکرار جسم
آج پھر کیسے کروں وہ سب جو کل میں نے کیا
بزم ہو بازار ہو ساری نگاہیں مجھ پہ ہیں
کیا ان آنکھوں کے اشاروں پر عمل میں نے کیا
جس جگہ مرنا تھا مجھ کو میں وہاں جیتا رہا
عشق میں ہر کام بے موقع محل میں نے کیا
غزل
آخر اس کے حسن کی مشکل کو حل میں نے کیا
فرحت احساس