آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری
بن بن کے بگڑنے لگی تقدیر ہماری
یہ عشق کے ہاتھوں ہوئی توقیر ہماری
بازاروں میں بکنے لگی تصویر ہماری
اس طرح کے دن رات دکھاتی ہے کرشمے
تقدیر پس پردۂ تدبیر ہماری
جلدی نہ کرو دھار ہے خنجر پہ ابھی تو
ہو لینے دو ثابت کوئی تقصیر ہماری
کچھ خون کی چھینٹیں کہیں اشکوں کی نمی ہے
جاتی ہے عجب شان سے تحریر ہماری
ہر سمت دہک اٹھتی ہے اک آگ جہاں میں
لو دیتی ہے جب رات کو زنجیر ہماری
بس ڈال لو چہرے پہ نقاب اپنے خدارا
بے ربط ہوئی جاتی ہے تقریر ہماری
یہ کہتے ہی بس مر گیا ناکام محبت
تم بھی نہ ہمارے ہوئے تقدیر ہماری
عالمؔ فلک تفرقہ پرداز کا ڈر ہے
بنتے ہی بگڑ جائے نہ تقدیر ہماری
غزل
آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی