آخر شب وہ تیری انگڑائی
کہکشاں بھی فلک پہ شرمائی
آپ نے جب توجہ فرمائی
گلشن زیست میں بہار آئی
داستاں جب بھی اپنی دہرائی
غم نے کی ہے بڑی پذیرائی
سجدہ ریزی کو کیسے ترک کروں
ہے یہی وجہ عزت افزائی
تم نے اپنا نیاز مند کہا
آج میری مراد بر آئی
آپ فرمائیے کہاں جاؤں
آپ کے در سے ہے شناسائی
اس کی تقدیر میں ہے وصل کی شب
جس نے برداشت کی ہے تنہائی
رات پہلو میں آپ تھے بے شک
رات مجھ کو بھی خوب نیند آئی
میں ہوں یوں اسم بامسمیٰ عزیزؔ
وارث پاک کا ہوں شیدائی
غزل
آخر شب وہ تیری انگڑائی
عزیز وارثی