عاجزی کو چلن کیے ہوئے ہیں
خاک اپنا بدن کئے ہوئے ہوں
ہجر اک مستقل لباس مرا
جس کو میں زیب تن کیے ہوئے ہوں
چند آنسو مرا اثاثہ ہیں
جن کو میں وقف فن کیے ہوئے ہوں
آبلے اگ رہے ہیں پاؤں میں
دشت سرو سمن کیے ہوئے ہوں
گھر میں رہ کر بھی گھر نہیں رہتا
خود کو یوں بے وطن کیے ہوئے ہوں
موت سے پہلے مر گیا ہوں میں
زندگی کو کفن کیے ہوئے ہوں
اس کا لہجہ کرخت ہو گیا ہے
اور میں حسن ظن کیے ہوئے ہوں
اک تری یاد ہے جسے زاہدؔ
اپنے دل کی چبھن کیے ہوئے ہوں
غزل
عاجزی کو چلن کیے ہوئے ہیں
زاہد شمسی