آج یوں درد ترا دل کے افق پر چمکا
جیسے دو پل کے لیے صبح کا اختر چمکا
یوں ضیا بار رہی ہجر کی شب یاد تری
غم کا شعلہ ترے رخسار سے بڑھ کر چمکا
خاک گلشن سے نہ کوئی بھی شرارا پھوٹا
فصل گل آئی نہ کوئی بھی گل تر چمکا
اب نہیں اہل نظر اہل بصیرت کوئی
لعل سمجھے ہیں اسے جب کوئی پتھر چمکا
اک کرن چھوڑ گیا دیدہ و دل میں حافظؔ
وہ حسیں اشک کہ جو نوک مژہ پر چمکا
غزل
آج یوں درد ترا دل کے افق پر چمکا
حافظ لدھیانوی