آج انہیں دیکھ لیا بزم میں فرزانوں کی
ہم نے تعریف سنی تھی ترے دیوانوں کی
دیدہ ور سلسلۂ اشک سمجھتے ہیں جسے
کہکشاں ہے مرے محبوب کے احسانوں کی
تم کو آنا ہے تو آ جاؤ اجالا ہے ابھی
شمعیں روشن ہیں مرے غم کے شبستانوں کی
معترض ہیں مری دیوانہ وشی پر وہ لوگ
جن کو دامن کی خبر ہے نہ گریبانوں کی
ہم ہیں میخانۂ فطرت کے شرابی ہم کو
نہ صراحی کی ضرورت ہے نہ پیمانوں کی
ہنس رہے ہو تو ہنسو اور ہنسو خوب ہنسو
حالت زار پہ ہم بے سر و سامانوں کی
عہد حاضر کے نئے میرؔ وہاں ہوں گے حبابؔ
مجھ کو محفل میں نہ لے جاؤ سخن دانوں کی
غزل
آج انہیں دیکھ لیا بزم میں فرزانوں کی
حباب ترمذی