آج تو دن بھر تری تصویر ہم دیکھا کئے
یعنی اپنے خواب کی تعبیر ہم دیکھا کئے
ہم نے دیکھا ہی نہیں آنکھیں اٹھا کر سمت گل
اپنے دل کا زخم دامن گیر ہم دیکھا کئے
عشق اول کی شب دیجور میں اے زندگی
زلف تیری یا کوئی زنجیر ہم دیکھا کئے
آج ہم دیکھا کئے چشم ستم گر کو خجل
آج اپنی آہ کی تاثیر ہم دیکھا کئے
ہم نے تو دیکھا نہیں اپنی رضا سے کچھ یہاں
جو بھی دکھلاتی رہی تقدیر ہم دیکھا کئے

غزل
آج تو دن بھر تری تصویر ہم دیکھا کئے
مینو بخشی