آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا
تجھ سے بچھڑا ہوں تو خود سے مل لیا اچھا ہوا
زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں ایسا ہوا
مدتوں ہم پر نہ تیری یاد کا سایا ہوا
دل سے شاید تیرا غم بھی اب جدا ہونے کو ہے
پھر رہا ہوں ان دنوں خود سے بھی میں الجھا ہوا
تم چمکتی کار پھولوں کی مہک اک اجنبی
ایسے لگتا ہے یہ منظر ہے مرا دیکھا ہوا
ریزہ ریزہ ہو گیا میں تو نے جب آواز دی
تیری خاموشی سے تھا میں اس قدر ٹوٹا ہوا
کتنی یادیں آنسوؤں میں تھرتھرا کر رہ گئیں
اس نے جب پوچھا کہو آزادؔ تم کو کیا ہوا
غزل
آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا
آزاد گلاٹی