EN हिंदी
آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا | شیح شیری
aaj tak phirta raha main tujh mein hi khoya hua

غزل

آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا

آزاد گلاٹی

;

آج تک پھرتا رہا میں تجھ میں ہی کھویا ہوا
تجھ سے بچھڑا ہوں تو خود سے مل لیا اچھا ہوا

زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں ایسا ہوا
مدتوں ہم پر نہ تیری یاد کا سایا ہوا

دل سے شاید تیرا غم بھی اب جدا ہونے کو ہے
پھر رہا ہوں ان دنوں خود سے بھی میں الجھا ہوا

تم چمکتی کار پھولوں کی مہک اک اجنبی
ایسے لگتا ہے یہ منظر ہے مرا دیکھا ہوا

ریزہ ریزہ ہو گیا میں تو نے جب آواز دی
تیری خاموشی سے تھا میں اس قدر ٹوٹا ہوا

کتنی یادیں آنسوؤں میں تھرتھرا کر رہ گئیں
اس نے جب پوچھا کہو آزادؔ تم کو کیا ہوا