EN हिंदी
آج تک جو بھی ہوا اس کو بھلا دینا ہے | شیح شیری
aaj tak jo bhi hua usko bhula dena hai

غزل

آج تک جو بھی ہوا اس کو بھلا دینا ہے

والی آسی

;

آج تک جو بھی ہوا اس کو بھلا دینا ہے
آج سے طے ہے کہ دشمن کو دعا دینا ہے

آ مرے یار پھر اک بار گلے سے لگ جا
پھر کبھی دیکھیں گے کیا لینا ہے کیا دینا ہے

آج تک ہم نے بہت ظلم کیے ہیں خود پر
عہد کرتے ہیں کہ اب خود کو سزا دینا ہے

جسم پر جان کا جو قرض چلا آتا ہے
اب کے فصل آئی تو وہ قرض چکا دینا ہے

اب اندھیرے تو بہت سر پہ چڑھے آتے ہیں
اب چراغوں میں لہو اپنا جلا دینا ہے