آج تک جو بھی ہوا اس کو بھلا دینا ہے
آج سے طے ہے کہ دشمن کو دعا دینا ہے
آ مرے یار پھر اک بار گلے سے لگ جا
پھر کبھی دیکھیں گے کیا لینا ہے کیا دینا ہے
آج تک ہم نے بہت ظلم کیے ہیں خود پر
عہد کرتے ہیں کہ اب خود کو سزا دینا ہے
جسم پر جان کا جو قرض چلا آتا ہے
اب کے فصل آئی تو وہ قرض چکا دینا ہے
اب اندھیرے تو بہت سر پہ چڑھے آتے ہیں
اب چراغوں میں لہو اپنا جلا دینا ہے
غزل
آج تک جو بھی ہوا اس کو بھلا دینا ہے
والی آسی