EN हिंदी
آج سوچا تو آنسو بھر آئے | شیح شیری
aaj socha to aansu bhar aae

غزل

آج سوچا تو آنسو بھر آئے

کیفی اعظمی

;

آج سوچا تو آنسو بھر آئے
مدتیں ہو گئیں مسکرائے

ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا
ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے

رہ گئی زندگی درد بن کے
درد دل میں چھپائے چھپائے

دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں
یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے