آج سودائے محبت کی یہ ارزانی ہے
کام بیکار جوانوں کا غزل خوانی ہے
غم کی تکمیل کا سامان ہوا ہے پیدا
لائق فخر مری بے سر و سامانی ہے
سنگ و آہن تو بنے آئینے ان کی خاطر
دل نہ آئینہ بنا سخت یہ حیرانی ہے
مجھ سے اس درجہ خفا کیوں ہو کوئی پردہ نشیں
آرزو دید کی جب فطرت انسانی ہے
فیصلہ دل کا محبت میں ہے رہبر اپنا
فکر کیا منزل جاناں اگر انجانی ہے
وہ کریں یا نہ کریں اپنی جفا سے توبہ
میرے دل کو مگر احساس پشیمانی ہے

غزل
آج سودائے محبت کی یہ ارزانی ہے
ہینسن ریحانی