آج پھر وقت کوئی اپنی نشانی مانگے
بات بھولی ہوئی زخموں کی زبانی مانگے
جذبۂ شوق کہ وارفتۂ حسن ابہام
اور وہ شوخ کہ لفظوں کے معانی مانگے
عرق آلود ہیں یہ سوچ کے عارض گل کے
صبح خورشید نہ شبنم کی جوانی مانگے
جانے کیوں شام ڈھلے ڈوبتے سورج کا سماں
دل سے پھر بھولی ہوئی کوئی کہانی مانگے
وقت ہر گام پہ اک زخم نیا دیتا ہے
اور شاعر سے جہاں زمزمہ خوانی مانگے
دل کہ تپتے ہوئے صحرا کا ہے رہرو پیارے
پھر تری زلف سے اک شام سہانی مانگے
غزل
آج پھر وقت کوئی اپنی نشانی مانگے
سید شکیل دسنوی