آج پھر ان سے ملاقات پہ رونا آیا
بھولی بسری ہوئی ہر بات پہ رونا آیا
غیر کے لطف و عنایات پہ رونا آیا
اور اپنوں کی شکایات پہ رونا آیا
عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا
دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا
اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں
اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا
ہم نہ سمجھے تھے کہ رسوائی الفت تو ہے
اے جنوں تیری خرافات پہ رونا آیا
وہ بھی دن تھے کہ بہت ناز تھا اپنے اوپر
آج خود اپنی ہی اوقات پہ رونا آیا
منع کرتے مگر اس طرح سے لازم بھی نہ تھا
آپ کے تلخ جوابات پہ رونا آیا
چھوڑیئے بھی مری قسمت میں لکھا تھا یہ بھی
آپ کو کیوں مرے حالات پہ رونا آیا
غزل
آج پھر ان سے ملاقات پہ رونا آیا
ذکی کاکوروی