EN हिंदी
آج پھر سر مقتل دے کے خود لہو ہم نے | شیح شیری
aaj phir sar-e-maqtal de ke KHud lahu humne

غزل

آج پھر سر مقتل دے کے خود لہو ہم نے

واحد پریمی

;

آج پھر سر مقتل دے کے خود لہو ہم نے
تیغ دست قاتل کی رکھ لی آبرو ہم نے

جان غنچہ و لالہ روح رنگ و بو ہم نے
آپ کو بنایا ہے کتنا خوبرو ہم نے

جب بھی لطف ساقی میں فرق آتے دیکھا ہے
بڑھ کے توڑ ڈالے ہیں ساغر و سبو ہم نے

بارہا زبانوں پر لگ گئی ہے پابندی
بارہا نگاہوں سے کی ہے گفتگو ہم نے

راہ شوق میں اکثر وہ بھی وقت آیا ہے
جب کیا ہے ہاتھوں سے خون آرزو ہم نے

شہر ہو بیاباں ہو دار ہو کہ زنداں ہو
نغمے زندگی ہی کے گائے چار سو ہم نے