EN हिंदी
آج میری شب فرقت کی سحر آئی ہے | شیح شیری
aaj meri shab-e-furqat ki sahar aai hai

غزل

آج میری شب فرقت کی سحر آئی ہے

شمیم جے پوری

;

آج میری شب فرقت کی سحر آئی ہے
مدتوں بعد تری راہ گزر آئی ہے

دیکھ تو لیجے مرے خون تمنا کی بہار
جس کی سرخی مری آنکھوں میں اتر آئی ہے

تو نے تو ترک محبت کی قسم کھائی تھی
کیوں تری آنکھ مجھے دیکھ کے بھر آئی ہے

ان کے پیراہن رنگیں کی مہک ہے اس میں
آج کیا باد صبا ہو کے ادھر آئی ہے

اس میں کچھ ان کی جفائیں بھی تو شامل ہیں شمیمؔ
بے وفائی کی جو تہمت مرے سر آئی ہے