آج میری شب فرقت کی سحر آئی ہے
مدتوں بعد تری راہ گزر آئی ہے
دیکھ تو لیجے مرے خون تمنا کی بہار
جس کی سرخی مری آنکھوں میں اتر آئی ہے
تو نے تو ترک محبت کی قسم کھائی تھی
کیوں تری آنکھ مجھے دیکھ کے بھر آئی ہے
ان کے پیراہن رنگیں کی مہک ہے اس میں
آج کیا باد صبا ہو کے ادھر آئی ہے
اس میں کچھ ان کی جفائیں بھی تو شامل ہیں شمیمؔ
بے وفائی کی جو تہمت مرے سر آئی ہے
غزل
آج میری شب فرقت کی سحر آئی ہے
شمیم جے پوری