آج میں نے گناہ کر ڈالا
آہ پہ واہ واہ کر ڈالا
خیر ہوتا نہیں تھا ہم سے بھی
خیر ہم نے نباہ کر ڈالا
یار منزل تھی میرے پیروں میں
رہنماؤں نے راہ کر ڈالا
سانپ ڈستا نہیں بھلا کیسے
ہاتھ میں نے ہی چاہ کر ڈالا
تم نے پوچھا نہیں بھی ہونا ہے
ایک دم سے تباہ کر ڈالا
غزل
آج میں نے گناہ کر ڈالا
دیپک شرما دیپ