آج کیا دیکھا خلاؤں کے سنہرے خواب میں
ریگزاروں کے سوا کچھ بھی نہیں مہتاب میں
جب سے پہنا ہے نئے موسم نے زخموں کا لباس
پھول سے کھلنے لگے ہیں دیدۂ خوں ناب میں
نصف شب کو نیند میں چلتا ہوا پیکر کوئی
نقش پا کیوں چھوڑ جاتا ہے دیار خواب میں
وہ تو خود اپنے تجسس میں بھٹک کر رہ گئے
تذکرہ تھا جن کی عظمت کا بہت احباب میں
چھیڑتا ہے ساز شب کو یوں سمندر کا سکوت
ڈوب جاتی ہے فضا سنگیت کے سیلاب میں
غزل
آج کیا دیکھا خلاؤں کے سنہرے خواب میں
پریم واربرٹنی