EN हिंदी
آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح | شیح شیری
aaj ki raat bhi guzri hai meri kal ki tarah

غزل

آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح

امیر قزلباش

;

آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے ترے آنچل کی طرح

حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناً یارو
ایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح

پھر نہ نکلا کوئی گھر سے کہ ہوا پھرتی تھی
سنگ ہاتھوں میں اٹھائے کسی پاگل کی طرح

تو کہ دریا ہے مگر میری طرح پیاسا ہے
میں تیرے پاس چلا آؤں گا بادل کی طرح

رات جلتی ہوئی اک ایسی چتا ہے جس پر
تیری یادیں ہیں سلگتے ہوئے صندل کی طرح

میں ہوں اک خواب مگر جاگتی آنکھوں کا امیرؔ
آج بھی لوگ گنوا دیں نہ مجھے کل کی طرح