آج جینے کی کچھ امید نظر آئی ہے
مدتوں بعد تری راہ گزر آئی ہے
زندگی کا کوئی احساس ہی باقی نہ رہا
زندگی لے کے مجھے آج کدھر آئی ہے
آپ دیکھیں تو ذرا خون تمنا کی بہار
کتنی سرخی مری آنکھوں میں اتر آئی ہے
کس کے پیراہن رنگیں کی مہک ہے اس میں
آج یہ باد صبا ہو کے کدھر آئی ہے
تو نے خود ترک محبت کی قسم کھائی تھی
کیوں تری آنکھ مجھے دیکھ کے بھر آئی ہے
اب کسی جلوۂ رنگیں سے مجھے کام نہیں
ان کی تصویر مرے دل میں اتر آئی ہے
اس میں کچھ ان کی جفائیں بھی تو شامل ہیں شمیمؔ
بے وفائی کی جو تہمت مرے سر آئی ہے
غزل
آج جینے کی کچھ امید نظر آئی ہے
شمیم جے پوری