آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی
کوئی تصویر روانی میں نہ تھی
ولولہ مصرعۂ اول میں نہ تھا
حرکت مصرعۂ ثانی میں نہ تھی
کوئی آہنگ نہ الفاظ میں تھا
کیفیت کوئی معانی میں نہ تھی
خوں کا نم سادہ نوائی میں نہ تھا
خوں کی بو شوخ بیانی میں نہ تھی
کوئی مفہوم تصور میں نہ تھا
کوئی بھی بات کہانی میں نہ تھی
رنگ اب کوئی خلاؤں میں نہ تھا
کوئی پہچان نشانی میں نہ تھی
خوش یقینی میں نہ تھا اب کوئی نور
ضو کوئی خندہ گمانی میں نہ تھی
جی سلگنے کا دھواں خط میں نہ تھا
روشنی حرف زبانی میں نہ تھی
رنج بھولے ہوئے وعدے کا نہ تھا
لذت اب یاد دہانی میں نہ تھی
لو کہ جامد سی غزل بھی لکھ دی
آج کچھ زندگی بانیؔ میں نہ تھی
غزل
آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی
راجیندر منچندا بانی